بسی ہے سوکھے گلابوں کی بات سانسوں میں
کوئی خیال کسی یاد کے حصار میں ہے
خالدہ عظمی
چلے آتے ہیں بے موسم کی بارش کی طرح آنسو
بسا اوقات رونے کا سبب کچھ بھی نہیں ہوتا
خالدہ عظمی
حقیقتیں تو اٹل ہیں بدل نہیں سکتیں
مگر کسی کی تسلی سے حوصلہ ہوا ہے
خالدہ عظمی
ادھر ادھر کے سنائے ہزار افسانے
دلوں کی بات سنانے کا حوصلہ نہ ہوا
خالدہ عظمی
کی مرے بعد قتل سے توبہ
آخری تیر تھا کمان میں کیا
خالدہ عظمی
وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے
دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا
خالدہ عظمی
یہ کیا خلش ہے کہ لو دے رہی ہے جذبوں کو
نہ جانے کون سا شعلہ میرے شرار میں ہے
خالدہ عظمی
زیست اور موت کا آخر یہ فسانہ کیا ہے
عمر کیوں حسب ضرورت نہیں دی جا سکتی
خالدہ عظمی