ہمارے ساتھ عجب ہی معاملہ ہوا ہے
ہوا ٹھہر سی گئی ہے دیا جلا ہوا ہے
اسی مقام پہ اک قافلہ رکا ہوا ہے
جہاں تمہارا مرا راستہ جدا ہوا ہے
نہ جانے باد صبا کہہ گئی ہے کان میں کیا
کہ پھول شاخ بریدہ پہ بھی کھلا ہوا ہے
ملے اک عمر کے بعد اور اس طرح سے ملے
وہ چپ ہے اور ہمارا بھی سر جھکا ہوا ہے
دیار مہر کی سرحد تلاش کرنے کو
مہ و نجوم کا اک قافلہ چلا ہوا ہے
حقیقتیں تو اٹل ہیں بدل نہیں سکتیں
مگر کسی کی تسلی سے حوصلہ ہوا ہے
بجائے دو کے بجے ایک ہاتھ سے تالی
معاملات میں ایسا کبھی بھلا ہوا ہے
مری امید کا ہے تیری آرزو کا ہے
دیا ہے اور بڑی دیر سے جلا ہوا ہے
امید کھل سی گئی ہے مہک اٹھا ہے خیال
صبا کی نرم سی دستک پہ دل کو کیا ہوا ہے
مہک رہا ہے مرے خار خار جیون میں
وہ لمحہ جو ابھی مجھ میں گلاب سا ہوا ہے
غزل
ہمارے ساتھ عجب ہی معاملہ ہوا ہے
خالدہ عظمی