سر چھپانے کے لیے چھت نہیں دی جا سکتی
ہر کسی کو یہ سہولت نہیں دی جا سکتی
سانس لینے کے لیے سب کو میسر ہے ہوا
اس سے بڑھ کر تو رعایت نہیں دی جا سکتی
تم کو راس آئے نہ آئے مری بستی کی فضا
یاں کسی جاں کی ضمانت نہیں دی جا سکتی
ایک مدت کے شب و روز لہو ہوتے ہیں
طشت میں رکھ کے قیادت نہیں دی جا سکتی
زیست اور موت کا آخر یہ فسانہ کیا ہے
عمر کیوں حسب ضرورت نہیں دی جا سکتی
ان دریچوں سے کوئی موجۂ خوش کن آئے
راحت جاں یہ اجازت نہیں دی جا سکتی
سوز دل تحفۂ قدرت ہے وگرنہ عظمیٰؔ
برف کو نرم حرارت نہیں دی جا سکتی
غزل
سر چھپانے کے لیے چھت نہیں دی جا سکتی
خالدہ عظمی