سواد غم ہو یا بزم طرب کچھ بھی نہیں ہوتا
زباں مرہم رکھے یا زخم اب کچھ بھی نہیں ہوتا
چلے آتے ہیں بے موسم کی بارش کی طرح آنسو
بسا اوقات رونے کا سبب کچھ بھی نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے تو بس اتنا کہ لفظوں کا بھرم ٹوٹے
سخن آتا ہے اکثر تا بہ لب کچھ بھی نہیں ہوتا
کبھی تھے مہرباں موسم کبھی ساون برستا تھا
اور اب دھرتی ہے ساری تشنہ لب کچھ بھی نہیں ہوتا
تمنا جھانکتی ہے روزن زنداں سے چھپ چھپ کر
اسیری میں مگر انجام شب کچھ بھی نہیں ہوتا
قیامت سی گزرتی ہے قیامت آ نہیں جاتی
کوئی بے جان ہو یا جاں بہ لب کچھ بھی نہیں ہوتا
جبلت سر اٹھا لے تو خس و خاشاک ہے انساں
بڑا ہو نام یا اونچا نسب کچھ بھی نہیں ہوتا
یہاں ہوتا ہے بعد از مرگ واویلا بہت لیکن
کوئی مر مر کے جب جیتا ہو تب کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ دنیا ہے یہاں تاریخ ہی دہرائی جاتی ہے
انوکھا کچھ نہیں ہوتا عجب کچھ بھی نہیں ہوتا
غزل
سواد غم ہو یا بزم طرب کچھ بھی نہیں ہوتا
خالدہ عظمی