ابھی مرنے کی جلدی ہے عبادیؔ
اگر زندہ رہے تو پھر ملیں گے
خالد عبادی
ہمارے ہاتھ کاٹے جا رہے تھے
تمہارے ہاتھ سے کرپان لے کر
خالد عبادی
کبھی کبھی چپ ہو جانے کی خواہش ہوتی ہے
ایسے میں جب تیر ستم کی بارش ہوتی ہے
خالد عبادی
میں زخم زخم نہیں ہوں مگر مسیحائی
مرے بدن میں مری جان کیوں نہیں رکھتی
خالد عبادی
شہر کا بھی دستور وہی جنگل والا
کھوجنے والے ہی اکثر کھو جاتے ہیں
خالد عبادی
یہ کیسا تنازع ہے کہ فیصل نہیں ہوتا
حق تیرا زیادہ ہے کہ حکام کا تیرے
خالد عبادی
ذرا سا درد اور اتنی دوائیں
پسند آئی نہیں چارہ گری تک
خالد عبادی
ذرا ٹھہرو اسے آنے دو اس کی بات بھی سن لیں
ہمیں جو علم ہے گو دل کو دہلانے ہی والا ہے
خالد عبادی