EN हिंदी
سنا ہے اس طرف کا رخ کریں گے | شیح شیری
suna hai is taraf ka ruKH karenge

غزل

سنا ہے اس طرف کا رخ کریں گے

خالد عبادی

;

سنا ہے اس طرف کا رخ کریں گے
ترے دشمن مری جانب بڑھیں گے

کسی سے کچھ نہ پوچھا کچھ نہ جانا
یہ دھبے خون کے کیسے دھلیں گے

بہت ہیں چار دن یہ زندگی کے
کبھی رن میں کبھی گھر میں رہیں گے

مسیحاؤں کو اب زحمت نہ ہوگی
ہم ان کے آتے آتے مر چکیں گے

کہاں جاتے ہیں گھبرائے ہوئے لوگ
کہ صحرا میں تو دیوانے رہیں گے

ابھی مرنے کی جلدی ہے عبادیؔ
اگر زندہ رہے تو پھر ملیں گے