مسافر راستے میں ہے ابھی تک
نہیں پہنچا اجالا تیرگی تک
گلوں میں چاند کھلنے کے یہ دن ہیں
مگر کھلتی نہیں ہے اک کلی تک
ذرا سا درد اور اتنی دوائیں
پسند آئی نہیں چارہ گری تک
برہنہ جسم پر دو چار دھبے
تماشا دیکھتے ہیں اجنبی تک
وہ ایسی قیمتی شے بھی نہیں تھی
لٹی تو یاد آتی ہے ابھی تک
لکھا خنجر سے تیرا نام دل پر
ہمیں آتی نہیں دیوانگی تک
اسے تصویر کرنے کی لگن میں
عبادیؔ بھول بیٹھے خودکشی تک
غزل
مسافر راستے میں ہے ابھی تک
خالد عبادی