تری طلب مجھے حیران کیوں نہیں رکھتی
شریک موجۂ امکان کیوں نہیں رکھتی
میں زخم زخم نہیں ہوں مگر مسیحائی
مرے بدن میں مری جان کیوں نہیں رکھتی
میں جھانکنے کے لیے تو نہ کہتا دنیا سے
یہ ہوشیار گریبان کیوں نہیں رکھتی
مجالدہ ہی ضروری ہے تو چمن کا نام
بہار جنگ کا میدان کیوں نہیں رکھتی
عجب طرح کی مشقت میں ڈال دیتی ہے
زمین خلق مرا دھیان کیوں نہیں رکھتی
عزیز تر ہے انہیں خواب تو شکست خواب
مری مثال پریشان کیوں نہیں رکھتی

غزل
تری طلب مجھے حیران کیوں نہیں رکھتی
خالد عبادی