کبھی کبھی چپ ہو جانے کی خواہش ہوتی ہے
ایسے میں جب تیر ستم کی بارش ہوتی ہے
حال ہمارا سننے والے جانے کیا سوچیں
یوں بھی کیسی کیسی ذہنی کاوش ہوتی ہے
دیواروں پر کیا لکھا ہے پڑھ کے بتلاؤ
کیا ایسی باتوں پر یارو نالش ہوتی ہے
ہم اس کی تعمیل میں دیوانے بن جاتے ہیں
دل ایسے ناداں کی جب فرمائش ہوتی ہے
دنیا سے اک روز ہماری بات ہوئی چھپ کر
سو بے چاری کی اب تک فہمائش ہوتی ہے
ایک ہی چھت کے نیچے چاروں وحشی کیا بیٹھے
داناؤں نے سمجھا کوئی سازش ہوتی ہے
یوں بھی ہم کو شاعر واعر کہلانا کب تھا
شعروں میں بھی اپنے جھوٹی دانش ہوتی ہے
غزل
کبھی کبھی چپ ہو جانے کی خواہش ہوتی ہے
خالد عبادی