یہ صحرا بس ابھی گل زار ہو جانے ہی والا ہے
کوئی طوفاں نہیں تو قافلہ آنے ہی والا ہے
ذرا ٹھہرو اسے آنے دو اس کی بات بھی سن لیں
ہمیں جو علم ہے گو دل کو دہلانے ہی والا ہے
سمندر میں جزیرے ہیں جزیروں پر ہے آبادی
ابھی اک شور بس کانوں سے ٹکرانے ہی والا ہے
ہوائے فصل گل میں شورش باد خزاں بھی ہے
کلی کھلتی ہے یعنی پھول مرجھانے ہی والا ہے
کہاں جاؤ گے کس خاک تمنا کی ہوس میں ہو
تمہاری راہ کا ہر موڑ ویرانے ہی والا ہے
وہی غرقاب ہوں گے ہم وہی کشتی نہ ڈوبے گی
اگرچہ ناخدا اس سچ کو جھٹلانے ہی والا ہے
غزل
یہ صحرا بس ابھی گل زار ہو جانے ہی والا ہے
خالد عبادی