اچھے خاصے لوگ برے ہو جاتے ہیں
جاگنے کا دعویٰ کر کے سو جاتے ہیں
شہر کا بھی دستور وہی جنگل والا
کھوجنے والے ہی اکثر کھو جاتے ہیں
دیوانوں کی گھات میں بیٹھنے والے لوگ
سنتے ہیں اک دن پاگل ہو جاتے ہیں
اس کی گلی میں جا کر اس سے الجھیں گے
ساتھ اگر ہونا ہے ہو لو جاتے ہیں
ہم جیسوں کو حیرت بھی ہوتی ہوگی
ایک ادھر آتا ہے ادھر دو جاتے ہیں
ہمت ہار گئے تو بازی ہار گئے
لوٹ جا تو بھی ہم بھی گھر کو جاتے ہیں
غزل
اچھے خاصے لوگ برے ہو جاتے ہیں
خالد عبادی