اب نہ وہ احباب زندہ ہیں نہ رسم الخط وہاں
روٹھ کر اردو تو دہلی سے دکن میں آ گئی
کاوش بدری
از سر نو فکر کا آغاز کرنا چاہیئے
بے پر و بال سہی پرواز کرنا چاہیئے
کاوش بدری
ایک بوسہ ہونٹ پر پھیلا تبسم بن گیا
جو حرارت تھی مری اس کے بدن میں آ گئی
کاوش بدری
ایک منظر بھی نہ دیکھا گیا مجھ سے کاوشؔ
سارے عالم کو کوئی دیکھ رہا ہے مجھ میں
کاوش بدری
جواب دینے کی مہلت نہ مل سکی ہم کو
وہ پل میں لاکھ سوالات کر کے جاتا ہے
کاوش بدری
لفظ کی بہتات اتنی نقد و فن میں آ گئی
مسخ ہو کر صورت معنی سخن میں آ گئی
کاوش بدری
ماحول سب کا ایک ہے آنکھیں وہی نظریں وہی
سب سے الگ راہیں مری سب سے جدا منظر مرا
کاوش بدری
میری آواز کو آواز نے تقسیم کیا
ریڈیو میں ہوں ٹیلیفون کے اندر ہوں میں
کاوش بدری
سانس لینے بھی نہ پایا تھا کہ منظر گم ہوا
میں کسی قابل نہ تھا ورنہ ٹھہرتا اور کچھ
کاوش بدری