از سر نو فکر کا آغاز کرنا چاہیئے
بے پر و بال سہی پرواز کرنا چاہیئے
سطح پر رہتے ہیں ان کو ڈوبنا آتا نہیں
کیوں نہ ان تنکوں کو سرافراز کرنا چاہیئے
قرب میں دوری بہت ہے بعد میں قربت بہت
ہر طوالت کو عطا ایجاز کرنا چاہیئے
دل بنا طاؤس اندیشے بنے زاغ و زغن
ذہن کو ہم پایۂ شہباز کرنا چاہیئے
ہر ادا معشوق کی بنتی ہے پیمان وفا
لغزش پا کو نظر انداز کرنا چاہیئے
شعر کی تخلیق کاوشؔ فعل جنسی تو نہیں
معنوی اولاد پر ہی ناز کرنا چاہیئے
غزل
از سر نو فکر کا آغاز کرنا چاہیئے
کاوش بدری