کہاں وہ رک کے کوئی بات کر کے جاتا ہے
ہمیشہ نصف ملاقات کر کے جاتا ہے
جواب دینے کی مہلت نہ مل سکی ہم کو
وہ پل میں لاکھ سوالات کر کے جاتا ہے
گرا کے قعر مذلت میں لاکھ خوش ہو مگر
بلند وہ مرے درجات کر کے جاتا ہے
سنے بغیر ہی احوال واقعی ہم سے
ہمیں سپرد حوالات کر کے جاتا ہے

غزل
کہاں وہ رک کے کوئی بات کر کے جاتا ہے
کاوش بدری