دست کہسار سے پھسلا ہوا پتھر ہوں میں
سر بسر سنگ تراشوں کا مقدر ہوں میں
گھونٹ لمحات کی پی پی کے دھلا جاتا ہوں
ان گنت وقت کے دھاروں کا شناور ہوں میں
کیا ڈبو دیتا ہوں میں دل کے کنویں میں خود کو
چشم بے نور میں یوسف کا برادر ہوں میں
کرچیاں ذہن میں پیوست ہیں پلکوں کی طرح
چشم ایام سے چھوٹا ہوا ساغر ہوں میں
اوڑھ لیتی ہے مجھے سرد فضا کی دیوی
کرب کی دھوپ میں تپتی ہوئی چادر ہوں میں
میری آواز کو آواز نے تقسیم کیا
ریڈیو میں ہوں ٹیلیفون کے اندر ہوں میں
نئے ماحول سے مانوس نہیں ہوں اب تک
ننھے بچہ کی طرح خول کے اندر ہوں میں
چند اشعار ملے ٹائپ شدہ دفتر میں
ٹائپ رائٹر پہ بٹھایا ہوا بندر ہوں میں
غزل
دست کہسار سے پھسلا ہوا پتھر ہوں میں
کاوش بدری