تاریخ کے صفحات میں کوئی نہیں ہم سر مرا
محو سفر ہے آج تک پھینکا ہوا پتھر مرا
ہر سمت صحن ذات میں پھیلے ہوئے سائے مرے
بیٹھا ہے تخت فکر پر سمٹا ہوا دل بر مرا
کیا خوش نصیبی ہے مری میں ایک تنہا فوج ہوں
جھوٹ اور سچ کی جنگ میں کام آ گیا لشکر مرا
ماحول سب کا ایک ہے آنکھیں وہی نظریں وہی
سب سے الگ راہیں مری سب سے جدا منظر مرا
اک رنگ استغراق ہے اک نکہت آوارگی
ٹھہرا ہوا گاگر میں ہے بہتا ہوا ساگر مرا
دنیا کرے گی ایک دن اوراق گردانی مری
یاد آئے گا احباب کو گنجینۂ گوہر مرا
کاوشؔ انا کی قید کے دیوار و در گرنے کو ہیں
اک عالم اصغر میں ہے اک عالم اکبر مرا
غزل
تاریخ کے صفحات میں کوئی نہیں ہم سر مرا
کاوش بدری