EN हिंदी
ایک اک گام پہ پتھراؤ ہوا ہے مجھ میں | شیح شیری
ek ek gam pe pathraw hua hai mujh mein

غزل

ایک اک گام پہ پتھراؤ ہوا ہے مجھ میں

کاوش بدری

;

ایک اک گام پہ پتھراؤ ہوا ہے مجھ میں
سلسلہ غم کا بہت دور چلا ہے مجھ میں

اتنا پھیلا ہوں سمٹنا ہی پڑے گا شاید
کوئی شدت سے مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

اشک ٹپکے تو کوئی راز کی تحریر ملی
اور کیا کیا نہیں معلوم لکھا ہے مجھ میں

گونجتا رہتا ہوں میں کوئی سنے یا نہ سنے
بھولی بسری ہوئی یادوں کی صدا ہے مجھ میں

ہوگی زائل نہ کبھی میرے نفس کی خوشبو
غم ترا عود کی مانند جلا ہے مجھ میں

طاق نسیاں پہ دیا کس نے یہ رکھ چھوڑا ہے
ایک مدت سے جلا ہے نہ بجھا ہے مجھ میں

ایک منظر بھی نہ دیکھا گیا مجھ سے کاوشؔ
سارے عالم کو کوئی دیکھ رہا ہے مجھ میں