EN हिंदी
اور ہوتی میری رسوائی نکھرتا اور کچھ | شیح شیری
aur hoti meri ruswai nikharta aur kuchh

غزل

اور ہوتی میری رسوائی نکھرتا اور کچھ

کاوش بدری

;

اور ہوتی میری رسوائی نکھرتا اور کچھ
غور کرتا اور کچھ اظہار کرتا اور کچھ

یار لوگوں میں سبق بنتی مری آوارگی
سانحہ اس شہر میں مجھ پر گزرتا اور کچھ

ان دنوں دیدہ بھی لگتا ہے شنیدہ کی طرح
کاش حرف و صوت کے من میں اترتا اور کچھ

آخری ہچکی سے دم ٹوٹا نہ نبض اپنی رکی
تو اگر ہوتا مرے آگے تو مرتا اور کچھ

سانس لینے بھی نہ پایا تھا کہ منظر گم ہوا
میں کسی قابل نہ تھا ورنہ ٹھہرتا اور کچھ

نثری نظمیں کہنے والے تو فرشتے ہیں تمام
مجھ گنہ گار غزل پر قہر اترتا اور کچھ

بے تکلف اس قدر تھا قتل میرا کر دیا
وہ عدو ہوتا تو کاوشؔ مجھ سے ڈرتا اور کچھ