EN हिंदी
کیفی وجدانی شیاری | شیح شیری

کیفی وجدانی شیر

7 شیر

بچا لیا تری خوشبو کے فرق نے ورنہ
میں تیرے وہم میں تجھ سے لپٹنے والا تھا

کیفی وجدانی




بستی میں غریبوں کی جہاں آگ لگی تھی
سنتے ہیں وہاں ایک نیا شہر بسے گا

کیفی وجدانی




خود ہی اچھالوں پتھر خود ہی سر پر لے لوں
جب چاہوں سونے موسم سے منظر لے لوں

کیفی وجدانی




میرے رستے میں جو رونق تھی میرے فن کی تھی
میرے گھر میں جو اندھیرا تھا میرا اپنا تھا

کیفی وجدانی




صرف دروازے تلک جا کے ہی لوٹ آیا ہوں
ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کا سفر کر آیا

کیفی وجدانی




تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا
میں منزلیں تری دہلیز سے ملا دیتا

کیفی وجدانی




زمیں کے زخم سمندر تو بھر نہ پائے گا
یہ کام دیدۂ تر تجھ کو سونپنا ہوگا

کیفی وجدانی