EN हिंदी
وہ سرد فاصلہ بس آج کٹنے والا تھا | شیح شیری
wo sard fasla bas aaj kaTne wala tha

غزل

وہ سرد فاصلہ بس آج کٹنے والا تھا

کیفی وجدانی

;

وہ سرد فاصلہ بس آج کٹنے والا تھا
میں اک چراغ کی لو سے لپٹنے والا تھا

بہت بکھیرا مجھے مرے مہربانوں نے
مرا وجود ہی لیکن سمٹنے والا تھا

بچا لیا تری خوشبو کے فرق نے ورنہ
میں تیرے وہم میں تجھ سے لپٹنے والا تھا

اسی کو چومتا رہتا تھا وہ کہ اس کو بھی
عزیز تھا وہی بازو جو کٹنے والا تھا

مجھی کو راہ بدلنی تھی سو بدل ڈالی
کہیں پہاڑ بھی ٹھوکر سے ہٹنے والا تھا

تلاش جس کی تھی وہ حرف مل گیا ورنہ
میں ایک سادہ ورق اور الٹنے والا تھا

یہ کس کو تیر چلانے کا شوق جاگ اٹھا
وہ باز میری طرف ہی جھپٹنے والا تھا