EN हिंदी
جب خیمہ زنو! زور ہواؤں کا گھٹے گا | شیح شیری
jab KHema-zano! zor hawaon ka ghaTega

غزل

جب خیمہ زنو! زور ہواؤں کا گھٹے گا

کیفی وجدانی

;

جب خیمہ زنو! زور ہواؤں کا گھٹے گا
خوں میری ہتھیلی کا طنابوں پہ ملے گا

ہو پیاس تو خود اپنے ہی ہونٹوں کا لہو چوس
سوکھی ہوئی جھیلوں میں تجھے کچھ نہ ملے گا

جلتے ہوئے رستوں کے لیے دیکھ لیا کر
کھڑکی نہ کھلے گی تو دھواں اور گھٹے گا

بستی میں غریبوں کی جہاں آگ لگی تھی
سنتے ہیں وہاں ایک نیا شہر بسے گا

پیڑوں کی اگر نسل کشی ختم نہیں کی
کچھ دن میں یہاں پیڑوں کا سایہ بھی بکے گا

بس آگ ابل سکتی ہیں یہ مردہ زمینیں
بے کار سی کوشش ہے یہاں کچھ نہ اگے گا

وہ مردہ دلی شام سے پہلے کی ادا تھی
اس وقت تو کیفیؔ کسی مقتل میں ملے گا