EN हिंदी
تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا | شیح شیری
tu ek qadam bhi jo meri taraf baDha deta

غزل

تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا

کیفی وجدانی

;

تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا
میں منزلیں تری دہلیز سے ملا دیتا

خبر تو دیتا مجھے مجھ کو چھوڑ جانے کی
میں واپسی کا تجھے راستہ بتا دیتا

مجھے تو رہنا تھا آخر حد تعین میں
وہ پاس آتا تو میں فاصلہ بڑھا دیتا

ہم ایک تھے تو ہمیں بے صدا ہی رہنا تھا
پکارتا وہ کسے میں کسے صدا دیتا

وہ خواب دیکھ رہی تھیں یہ جاگتی آنکھیں
چراغ خود نہیں بجھتا تو میں بجھا دیتا

ہوا کے رخ پہ مرا گاؤں ہی نہ تھا ورنہ
جو مٹھیوں میں بھری تھی وہ خاک اڑا دیتا