آئینہ تھا تو جو چہرہ تھا میرا اپنا تھا
مجھ میں جو عکس بھی اترا تھا میرا اپنا تھا
وہ جو آہٹ تھی کوئی روپ نہیں دھار سکی
وہ جو دیوار پہ سایا تھا میرا اپنا تھا
وہ جو ہونٹوں پہ تپن سی تھی وہ میری ضد تھی
وہ جو دریاؤں پہ پہرا تھا میرا اپنا تھا
میرے رستے میں جو رونق تھی میرے فن کی تھی
میرے گھر میں جو اندھیرا تھا میرا اپنا تھا
اجنبیت کا وہ احساس تھا میری قسمت
وہ جو اپنا نہیں لگتا تھا میرا اپنا تھا
میری سوچوں میں جو منزل تھی میری اپنی تھی
میرے قدموں میں جو رستہ تھا میرا اپنا تھا
صرف پانی پہ تو قبضہ تھا میرے دشمن کا
مجھ میں جو خون کا دجلہ تھا میرا اپنا تھا
غزل
آئینہ تھا تو جو چہرہ تھا میرا اپنا تھا
کیفی وجدانی