خود ہی اچھالوں پتھر خود ہی سر پر لے لوں
جب چاہوں سونے موسم سے منظر لے لوں
آئینہ سے میرا قاتل مجھ کو پکارے
لاؤ میں بھی اپنے ہاتھوں پتھر لے لوں
جن رستوں نے جان و دل پر زخم سجائے
ان رستوں سے پوجنے والے پتھر لے لوں
میں شنکر سے زہر کا پیالہ چھین کے پی لوں
لہجے کے اس کرب میں سارے منظر لے لوں
مجھ سے کہے تو اپنے دل کی بات وہ ظالم
اس کے دل کا بوجھ میں اپنے سر پر لے لوں
کچھ لے دے کر بات بنا لوں اپنی کیفیؔ
کچھ دنیا کو ہنس کر دوں کچھ رو کر لے لوں
غزل
خود ہی اچھالوں پتھر خود ہی سر پر لے لوں
کیفی وجدانی