EN हिंदी
خود سے ملنے کے لیے خود سے گزر کر آیا | شیح شیری
KHud se milne ke liye KHud se guzar kar aaya

غزل

خود سے ملنے کے لیے خود سے گزر کر آیا

کیفی وجدانی

;

خود سے ملنے کے لیے خود سے گزر کر آیا
کس قدر سخت مہم تھی کہ جو سر کر آیا

لاش ہوتا تو ابھر آتا کی اک میں ہی کیا
سطح پر کوئی بھی پتھر نہ ابھر کر آیا

صرف دروازے تلک جا کے ہی لوٹ آیا ہوں
ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کا سفر کر آیا

چاند قدموں پہ پڑا مجھ کو بلاتا ہی رہا
میں ہی خود بام سے اپنے نہ اتر کر آیا

مجھ کو آنا ہی تھا اک روز حقیقت کے قریب
زندگی میں نہیں آیا تھا تو مر کر آیا