EN हिंदी
وہ آج لوٹ بھی آئے تو اس سے کیا ہوگا | شیح شیری
wo aaj lauT bhi aae to is se kya hoga

غزل

وہ آج لوٹ بھی آئے تو اس سے کیا ہوگا

کیفی وجدانی

;

وہ آج لوٹ بھی آئے تو اس سے کیا ہوگا
اب اس نگاہ کا پتھر سے سامنا ہوگا

زمیں کے زخم سمندر تو بھر نہ پائے گا
یہ کام دیدۂ تر تجھ کو سونپنا ہوگا

ہزار نیزے ادھر اور میں ادھر تنہا
مری شکست کا عنواں ہی دوسرا ہوگا

جو تیز دھوپ میں سایوں کی فصل بوتے ہیں
یہاں کی آب و ہوا کا انہیں پتہ ہوگا

میں اور ایک قدم اس کی سمت بڑھ جاتا
پتہ نہ تھا کہ وہ اتنا گریز پا ہوگا

مرا یقیں ہے کہ راہ وفا میں میرے بعد
مرا سفر ترے قدموں نے طے کیا ہوگا