آگہی سے ملی ہے تنہائی
آ مری جان مجھ کو دھوکا دے
جاوید اختر
اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی
ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا
جاوید اختر
عقل یہ کہتی دنیا ملتی ہے بازار میں
دل مگر یہ کہتا ہے کچھ اور بہتر دیکھیے
جاوید اختر
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا
جاوید اختر
چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں
جاوید اختر
ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے
لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا
جاوید اختر
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
جاوید اختر
دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ
جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ
جاوید اختر
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
جاوید اختر