EN हिंदी
جاوید اختر شیاری | شیح شیری

جاوید اختر شیر

43 شیر

اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈھتا پھرا اس کو وہ نگر نگر تنہا

جاوید اختر




اک محبت کی یہ تصویر ہے دو رنگوں میں
شوق سب میرا ہے اور ساری حیا اس کی ہے

جاوید اختر




ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے

جاوید اختر




اس شہر میں جینے کے انداز نرالے ہیں
ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں

جاوید اختر




جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا
مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

جاوید اختر




کبھی ہم کو یقیں تھا زعم تھا دنیا ہماری جو مخالف ہو تو ہو جائے مگر تم مہرباں ہو
ہمیں یے بات ویسے یاد تو اب کیا ہے لیکن ہاں اسے یکسر بھلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

جاوید اختر




کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی

جاوید اختر