یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا
کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا
ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے
لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا
کچھ باتوں کے مطلب ہیں اور کچھ مطلب کی باتیں
جو یہ فرق سمجھ لے گا وہ دیوانہ تو ہوگا
دل کی باتیں نہیں ہے تو دلچسپ ہی کچھ باتیں ہوں
زندہ رہنا ہے تو دل کو بہلانا تو ہوگا
جیت کے بھی وہ شرمندہ ہے ہار کے بھی ہم نازاں
کم سے کم وہ دل ہی دل میں یہ مانا تو ہوگا
غزل
یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا
جاوید اختر