کل جہاں دیوار تھی ہے آج اک در دیکھیے
کیا سمائی تھی بھلا دیوانے کے سر دیکھیے
پر سکوں لگتی ہے کتنی جھیل کے پانی پہ بط
پیروں کی بے تابیاں پانی کے اندر دیکھیے
چھوڑ کر جس کو گئے تھے آپ کوئی اور تھا
اب میں کوئی اور ہوں واپس تو آ کر دیکھیے
ذہن انسانی ادھر آفاق کی وسعت ادھر
ایک منظر ہے یہاں اندر کہ باہر دیکھیے
عقل یہ کہتی دنیا ملتی ہے بازار میں
دل مگر یہ کہتا ہے کچھ اور بہتر دیکھیے
غزل
کل جہاں دیوار تھی ہے آج اک در دیکھیے
جاوید اختر