EN हिंदी
دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ | شیح شیری
dukh ke jangal mein phirte hain kab se mare mare log

غزل

دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ

جاوید اختر

;

دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ
جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ

جیون جیون ہم نے جگ میں کھیل یہی ہوتے دیکھا
دھیرے دھیرے جیتی دنیا دھیرے دھیرے ہارے لوگ

وقت سنگھاسن پر بیٹھا ہے اپنے راگ سناتا ہے
سنگت دینے کو پاتے ہیں سانسوں کے اکتارے لوگ

نیکی اک دن کام آتی ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے بے بس مرتے دیکھے کیسے پیارے پیارے لوگ

اس نگری میں کیوں ملتی ہے روٹی سپنوں کے بدلے
جن کی نگری ہے وہ جانیں ہم ٹھہرے بنجارے لوگ