EN हिंदी
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں | شیح شیری
dard ke phul bhi khilte hain bikhar jate hain

غزل

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں

جاوید اختر

;

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں

راستہ روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں

چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں

نرم الفاظ بھلی باتیں مہذب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اتر جاتے ہیں

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں