یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا
کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا
جاوید اختر
یہی حالات ابتدا سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے
جاوید اختر
یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے
خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا
جاوید اختر
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
بہت سے زرد چہروں پر غبار غم ہے کم بے شک پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
جاوید اختر
ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے
وہ چہرہ جیسے ہو ٹوٹے ہوئے کھلونے کا
جاوید اختر
اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی
ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا
جاوید اختر
عقل یہ کہتی دنیا ملتی ہے بازار میں
دل مگر یہ کہتا ہے کچھ اور بہتر دیکھیے
جاوید اختر
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا
جاوید اختر
چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں
جاوید اختر