در و دیوار بھی گھر کے بہت مایوس تھے ہم سے
سو ہم بھی رات اس جاگیر سے باہر نکل آئے
حسیب سوز
میری سنجیدہ طبیعت پہ بھی شک ہے سب کو
بعض لوگوں نے تو بیمار سمجھ رکھا ہے
حسیب سوز
تیرے مہماں کے سواگت کا کوئی پھول تھے ہم
جو بھی نکلا ہمیں پیروں سے کچل کر نکلا
حسیب سوز
تو ایک سال میں اک سانس بھی نہ جی پایا
میں ایک سجدے میں صدیاں کئی گزار گیا
حسیب سوز
وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا
لباس پہنے رہا اور بدن اتار گیا
حسیب سوز
یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے
کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے
حسیب سوز
یہ بد نصیبی نہیں ہے تو اور پھر کیا ہے
سفر اکیلے کیا ہم سفر کے ہوتے ہوئے
حسیب سوز
یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے کیا ہے
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے
حسیب سوز