خود کو اتنا جو ہوا دار سمجھ رکھا ہے
کیا ہمیں ریت کی دیوار سمجھ رکھا ہے
ہم نے کردار کو کپڑوں کی طرح پہنا ہے
تم نے کپڑوں ہی کو کردار سمجھ رکھا ہے
میری سنجیدہ طبیعت پہ بھی شک ہے سب کو
بعض لوگوں نے تو بیمار سمجھ رکھا ہے
اس کو خود داری کا کیا پاٹھ پڑھایا جائے
بھیک کو جس نے پرسکار سمجھ رکھا ہے
تو کسی دن کہیں بے موت نہ مارا جائے
تو نے یاروں کو مددگار سمجھ رکھا ہے
غزل
خود کو اتنا جو ہوا دار سمجھ رکھا ہے
حسیب سوز