EN हिंदी
وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا | شیح شیری
wo ek raat ki gardish mein itna haar gaya

غزل

وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا

حسیب سوز

;

وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا
لباس پہنے رہا اور بدن اتار گیا

حسب نسب بھی کرائے پہ لوگ لانے لگے
ہمارے ہاتھ سے اب یہ بھی کاروبار گیا

اسے قریب سے دیکھا تو کچھ شفا پائی
کئی برس میں مرے جسم سے بخار گیا

تمہاری جیت کا مطلب ہے جنگ پھر ہوگی
ہماری ہار کا مطلب ہے انتشار گیا

تو ایک سال میں اک سانس بھی نہ جی پایا
میں ایک سجدے میں صدیاں کئی گزار گیا