وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا
لباس پہنے رہا اور بدن اتار گیا
حسب نسب بھی کرائے پہ لوگ لانے لگے
ہمارے ہاتھ سے اب یہ بھی کاروبار گیا
اسے قریب سے دیکھا تو کچھ شفا پائی
کئی برس میں مرے جسم سے بخار گیا
تمہاری جیت کا مطلب ہے جنگ پھر ہوگی
ہماری ہار کا مطلب ہے انتشار گیا
تو ایک سال میں اک سانس بھی نہ جی پایا
میں ایک سجدے میں صدیاں کئی گزار گیا
غزل
وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا
حسیب سوز