نظر نہ آئے ہم اہل نظر کے ہوتے ہوئے
عذاب خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے
یہ کون مجھ کو کنارے پہ لا کے چھوڑ گیا
بھنور سے بچ گیا کیسے بھنور کے ہوتے ہوئے
یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے کیا ہے
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے
تو اس زمین پہ دو گز ہمیں جگہ دے دے
ادھر نہ جائیں گے ہرگز ادھر کے ہوتے ہوئے
یہ بد نصیبی نہیں ہے تو اور پھر کیا ہے
سفر اکیلے کیا ہم سفر کے ہوتے ہوئے
غزل
نظر نہ آئے ہم اہل نظر کے ہوتے ہوئے
حسیب سوز