درد آسانی سے کب پہلو بدل کر نکلا
آنکھ کا تنکا بہت آنکھ مسل کر نکلا
تیرے مہماں کے سواگت کا کوئی پھول تھے ہم
جو بھی نکلا ہمیں پیروں سے کچل کر نکلا
شہر کی آنکھیں بدلنا تو مرے بس میں نہ تھا
یہ کیا میں نے کہ میں بھیس بدل کر نکلا
مرے رستے کے مسائل تھے نوکیلے اتنے
میرے دشمن بھی مرے پیروں سے چل کر نکلا
ڈگمگانے نہ دیئے پاؤں روا داری نے
میں شرابی تھا مگر روز سنبھل کر نکلا
غزل
درد آسانی سے کب پہلو بدل کر نکلا
حسیب سوز