ہمارے خواب سب تعبیر سے باہر نکل آئے
وہ اپنے آپ کل تصویر سے باہر نکل آئے
یہ اہل ہوش تو گھر سے کبھی باہر نہیں نکلے
مگر دیوانے ہر زنجیر سے باہر نکل آئے
کوئی آواز دے کر دیکھ لے مڑ کر نہ دیکھیں گے
محبت تیرے اک اک تیر سے باہر نکل آئے
در و دیوار بھی گھر کے بہت مایوس تھے ہم سے
سو ہم بھی رات اس جاگیر سے باہر نکل آئے
بڑی مشکل زمینوں میں گلابی رنگ بھرنا تھا
بہت جلدی بیاض میرؔ سے باہر نکل آئے
غزل
ہمارے خواب سب تعبیر سے باہر نکل آئے
حسیب سوز