EN हिंदी
ہمارے خواب سب تعبیر سے باہر نکل آئے | شیح شیری
hamare KHwab sab tabir se bahar nikal aae

غزل

ہمارے خواب سب تعبیر سے باہر نکل آئے

حسیب سوز

;

ہمارے خواب سب تعبیر سے باہر نکل آئے
وہ اپنے آپ کل تصویر سے باہر نکل آئے

یہ اہل ہوش تو گھر سے کبھی باہر نہیں نکلے
مگر دیوانے ہر زنجیر سے باہر نکل آئے

کوئی آواز دے کر دیکھ لے مڑ کر نہ دیکھیں گے
محبت تیرے اک اک تیر سے باہر نکل آئے

در و دیوار بھی گھر کے بہت مایوس تھے ہم سے
سو ہم بھی رات اس جاگیر سے باہر نکل آئے

بڑی مشکل زمینوں میں گلابی رنگ بھرنا تھا
بہت جلدی بیاض میرؔ سے باہر نکل آئے