EN हिंदी
حسن عابدی شیاری | شیح شیری

حسن عابدی شیر

9 شیر

اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ
پارساؤں دیوتاؤں قاتلوں کے درمیاں

حسن عابدی




اشکوں میں پرو کے اس کی یادیں
پانی پہ کتاب لکھ رہا ہوں

حسن عابدی




دل کی دہلیز پہ جب شام کا سایہ اترا
افق درد سے سینے میں اجالا اترا

حسن عابدی




دنیا کہاں تھی پاس وراثت کے ضمن میں
اک دین تھا سو اس پہ لٹائے ہوئے تو ہیں

حسن عابدی




کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے اک ترے نہ ہونے سے
ورنہ ایسی باتوں پر کون ہاتھ ملتا ہے

حسن عابدی




سب امیدیں مرے آشوب تمنا تک تھیں
بستیاں ہو گئیں غرقاب تو دریا اترا

حسن عابدی




شہر نا پرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں
بام و در روشن ہیں لیکن راستہ ملتا نہیں

حسن عابدی




تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے
گل کو بھی ہاتھ لگاؤ تو لہو دیتا ہے

حسن عابدی




یاد یاراں دل میں آئی ہوک بن کر رہ گئی
جیسے اک زخمی پرندہ جس کے پر ٹوٹے ہوئے

حسن عابدی