شہر نا پرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں
بام و در روشن ہیں لیکن راستہ ملتا نہیں
فصل گل ایسی کہ ارزاں ہو گئے کاغذ کے پھول
اب کوئی گل پیرہن زریں قبا ملتا نہیں
آشنا چہروں سے رنگ آشنائی اڑ گیا
ہم زباں اب خشک پتوں کے سوا ملتا نہیں
ایک سناٹا ہے شبنم سے شعاع نور تک
اب کوئی آنچل پس موج صبا ملتا نہیں
حاکموں نے شہر کے اندر فصیلیں کھینچ دیں
دن میں بھی اب کوئی دروازہ کھلا ملتا نہیں
اتنے بے پروا ارادے اتنے بے توفیق غم
ہاتھ اٹھتے ہیں مگر حرف دعا ملتا نہیں

غزل
شہر نا پرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں
حسن عابدی