کون دیکھے میری شاخوں کے ثمر ٹوٹے ہوئے
گھر سے باہر راستوں میں ہیں شجر ٹوٹے ہوئے
لٹ گیا دن کا اثاثہ اور باقی رہ گئے
شام کی دہلیز پر لعل و گہر ٹوٹے ہوئے
یاد یاراں دل میں آئی ہوک بن کر رہ گئی
جیسے اک زخمی پرندہ جس کے پر ٹوٹے ہوئے
رات ہے اور آتی جاتی ساعتیں آنکھوں میں ہیں
جیسے آئینے بساط خواب پر ٹوٹے ہوئے
آبگینے پتھروں پر سرنگوں ہوتے گئے
اور ہم بچ کر نکل آئے مگر ٹوٹے ہوئے
مل گئے مٹی میں کیا کیا منتظر آنکھوں کے خواب
کس نے دیکھے ہیں ستارے خاک پر ٹوٹے ہوئے
وہ جو دل کی مملکت تھی بابری مسجد ہوئی
بستیاں سنسان گھر ویران در ٹوٹے ہوئے
غزل
کون دیکھے میری شاخوں کے ثمر ٹوٹے ہوئے
حسن عابدی