ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
اس جان انجمن کے لیے بے قرار دل
آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں
میلاد ہو کہ مجلس غم مبتلا ترے
آنگن میں دل کے فرش بچھائے ہوئے تو ہیں
حزب حرم نے شوق جنوں کو بڑھا دیا
سینے سے ہم بتوں کو لگائے ہوئے تو ہیں
دنیا کہاں تھی پاس وراثت کے ضمن میں
اک دین تھا سو اس پہ لٹائے ہوئے تو ہیں
کب چوب دار پر ہوں سرافراز دیکھیے
اس شوخ کی نگاہ میں آئے ہوئے تو ہیں
غزل
ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
حسن عابدی