پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں
رات کی پرچھائیاں جیسے دیوں کے درمیاں
پھر کسی نے ایک خوں آلود خنجر رکھ دیا
خوف کے ظلمت کدے میں دوستوں کے درمیاں
کیا سنہری دور تھا ہم زرد پتوں کی طرح
در بہ در پھرتے رہے پیلی رتوں کے درمیاں
اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ
پارساؤں دیوتاؤں قاتلوں کے درمیاں
آشتی کے نام پر اتنی صف آرائی ہوئی
آ گئی بارود کی خوش بو گلوں کے درمیاں
میرا چہرہ خود بھی آشوب سفر میں کھو گیا
میں یہ کس کو ڈھونڈتا ہوں منزلوں کے درمیاں
غزل
پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں
حسن عابدی