امید کا باب لکھ رہا ہوں
پتھر پہ گلاب لکھ رہا ہوں
وہ شہر تو خواب ہو چکا ہے
جس شہر کے خواب لکھ رہا ہوں
اشکوں میں پرو کے اس کی یادیں
پانی پہ کتاب لکھ رہا ہوں
وہ چہرہ تو آئینہ نما ہے
میں جس کو حجاب لکھ رہا ہوں
صحرا میں وفور تشنگی سے
سائے کو سحاب لکھ رہا ہوں
لمحوں کے سوال سے گریزاں
صدیوں کا جواب لکھ رہا ہوں
سب اس کے کرم کی داستانیں
میں زیر عتاب لکھ رہا ہوں
غزل
امید کا باب لکھ رہا ہوں
حسن عابدی