تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے
گل کو بھی ہاتھ لگاؤ تو لہو دیتا ہے
نیشتر اور سہی کار دگر اور سہی
دل صد چاک اگر اذن رفو دیتا ہے
تاب فریاد بھی دے لذت بیداد بھی دے
دینے والے جو مجھے سوز گلو دیتا ہے
ہم تو برباد ہوئے برگ خزاں کی صورت
شاخ گل کون تجھے ذوق نمو دیتا ہے
منصفو ہاتھ سے اب دشنہ و خنجر رکھ دو
کیا برا ہے اگر انصاف عدو دیتا ہے
اے خداوند مرے شعر کی قیمت کیا ہے
ایک روٹی کا نوالہ جسے تو دیتا ہے

غزل
تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے
حسن عابدی