بہ خدا سجدے کرے گا وہ بٹھا کر بت کو
اب حقیرؔ آگے مسلمان رہے یا نہ رہے
حقیر
بند قبا پہ ہاتھ ہے شرمائے جاتے ہیں
کمسن ہیں ذکر وصل سے گھبرائے جاتے ہیں
حقیر
بت کو پوجوں گا صنم خانوں میں جا جا کے تو میں
اس کے پیچھے مرا ایمان رہے یا نہ رہے
حقیر
بت کدے میں بھی گیا کعبہ کی جانب بھی گیا
اب کہاں ڈھونڈھنے تجھ کو ترا شیدا جاتا
حقیر
چار دن کی بہار ہے ساری
یہ تکبر ہے یار جانی ہیچ
حقیر
چھا گئی ایک مصیبت کی گھٹا چار طرف
کھلے بالوں جو وہ دریا سے نہا کر نکلے
حقیر
دیکھا بغور عیب سے خالی نہیں کوئی
بزم جہاں میں سب ہیں خدا کے سنوارے لوگ
حقیر
حقارت کی نگاہوں سے نہ فرش خاک کو دیکھو
امیروں کا فقیروں کا یہی آخر کو بستر ہے
حقیر
عشق کے پھندے سے بچئے اے حقیرؔ خستہ دل
اس کا ہے آغاز شیریں اور ہے انجام تلخ
حقیر