EN हिंदी
حقیر شیاری | شیح شیری

حقیر شیر

22 شیر

جب سے کچھ قابو ہے اپنا کاکل خم دار پر
سانپ ہر دم لوٹتا ہے سینۂ اغیار پر

حقیر




بہ خدا سجدے کرے گا وہ بٹھا کر بت کو
اب حقیرؔ آگے مسلمان رہے یا نہ رہے

حقیر




عشق کے پھندے سے بچئے اے حقیرؔ خستہ دل
اس کا ہے آغاز شیریں اور ہے انجام تلخ

حقیر




حقارت کی نگاہوں سے نہ فرش خاک کو دیکھو
امیروں کا فقیروں کا یہی آخر کو بستر ہے

حقیر




دیکھا بغور عیب سے خالی نہیں کوئی
بزم جہاں میں سب ہیں خدا کے سنوارے لوگ

حقیر




چھا گئی ایک مصیبت کی گھٹا چار طرف
کھلے بالوں جو وہ دریا سے نہا کر نکلے

حقیر




چار دن کی بہار ہے ساری
یہ تکبر ہے یار جانی ہیچ

حقیر




بت کدے میں بھی گیا کعبہ کی جانب بھی گیا
اب کہاں ڈھونڈھنے تجھ کو ترا شیدا جاتا

حقیر




بت کو پوجوں گا صنم خانوں میں جا جا کے تو میں
اس کے پیچھے مرا ایمان رہے یا نہ رہے

حقیر