بہار آئی ہے صدمہ سے ہمارا حال ابتر ہے
گھٹا گھنگھور چھائی ہے نہ ساقی ہے نہ ساغر ہے
نشاں کیا پوچھتے ہیں آپ ہم خانہ بدوشوں کا
کبھی گلشن میں مسکن ہے کبھی صحرا میں بستر ہے
حقارت کی نگاہوں سے نہ فرش خاک کو دیکھو
امیروں کا فقیروں کا یہی آخر کو بستر ہے
حقیرؔ اک خواب تھا جو آپ نے دیکھا تھا لندن میں
نہ وہ سامان ہے باقی نہ اب پہلو میں دلبر ہے
غزل
بہار آئی ہے صدمہ سے ہمارا حال ابتر ہے
حقیر