EN हिंदी
دشمن ہیں وہ بھی جان کے جو ہیں ہمارے لوگ | شیح شیری
dushman hain wo bhi jaan ke jo hain hamare log

غزل

دشمن ہیں وہ بھی جان کے جو ہیں ہمارے لوگ

حقیر

;

دشمن ہیں وہ بھی جان کے جو ہیں ہمارے لوگ
اور آپ کے ہیں دوست زمانے میں سارے لوگ

آتا نہیں ہے ساحل بحر فنا نظر
کیا جانیں پار ہوتے ہیں کس کے سہارے لوگ

کیا جانیں ان کی چال میں اعجاز ہے کہ سحر
وہ بھی انہیں سے مل گئے جو تھے ہمارے لوگ

ہو کس زباں سے محفل دل دار کی ثنا
وہ آفتاب حسن تو انجم ہیں سارے لوگ

تقصیر وار عشق جو ہوتا ہے کوئی ذبح
کرتے ہیں عفو جرم کے ان سے اشارے لوگ

دیکھا بغور عیب سے خالی نہیں کوئی
بزم جہاں میں سب ہیں خدا کے سنوارے لوگ

چھوڑا نہ ساتھ حشر تک اعمال نیک حقیرؔ
سب ہو گئے لٹا کے لحد میں کنارے لوگ